یوپی کے باہر اے ایم یو کے مراکز: ایک توجہ طلب اور نامکمل منصوبہ

محمد ثابت و محمد شفیق این

مسلمانانِ ہند کی زندگیوں اور وسیع تناظر میں بھارت کی عظیم تکثیری وراثت کے تحفظ میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا کیا کردار ہے؟

برطانوی طاقتوں کے ہاتھوں 1857 کی غدر کے بری طرح کچلے جانے کے محض دو دہائیوں بعد مصلح قوم و صاحب بصیرت شخصیت سر سید احمد خان نے 1875 میں ’مدرسۃ العلوم مسلمانانِ ہند‘ کے طور پر یونیورسٹی کی بنیاد ڈالی۔جس کی شروعات اترپردیش میں ہوئی اور جہاں سے بڑی تعداد میں مسلمان فیضیاب ہوئے۔ سر سید چاہتے تھے کہ 1857 کی ناکام جنگ آزادی کے بعد الگ تھلگ کر دئے گئے مسلمان پھر سے مرکزی دھارے میں شامل ہو کر تعلیم کے میدان میں خوب ترقی کریں۔

مدرسۃ العلوم جلد ہی محمڈن اینگلو اوریینٹل کالج بن گیا۔ پھر یہی کالج برطانوی دور کی قانون ساز اسمبلی کے ذریعہ پاس کردہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایکٹ کے بعد 1920 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کہلایا۔

سر سید کی نظر میں، انگریزی اور جدید سائنس میں مہارت مسلمانوں کے سیاسی اثرورسوخ کو برقرار رکھنے کے لئے لازمی صلاحیت تھی۔ اسی لئے سر سید نے علی گڑھ میں اپنے ادارے کے قیام سے قبل برطانیہ کی آکسفارڈ اور کیمبریج جیسی اعلیٰ سطح کی یونیورسٹیوں کا دورہ کیا۔

یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی (اے ایم یو) آج ملک کے ایک اعلیٰ ترین تعلیمی مرکز کا درجہ رکھتی ہے، جہاں سے فراغت پانے والے ہزاروں طلبہ و طالبات نے مختلف میدانوں میں اپنی خدمات پیش کی ہیں۔

حال ہی میں اے ایم یو برادری سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ اے ایم یو برادری یعنی اس کے طلبہ، اساتذہ اور پروفیسر حضرات گذشتہ ”سو سالوں“ سے ملک کی خدمت کر رہے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ”۔۔۔۔اے ایم یو کیمپس اپنے آپ میں ایک قصبہ ہے۔ یہاں کے الگ الگ شعبوں، درجنوں ہاسٹلوں، ہزاروں اساتذہ، پروفیسر اور لاکھوں طلبہ میں ایک مِنی انڈیا بھی دیکھا جا سکتا ہے۔“

لیکن آج یہ یونیورسٹی کہاں کھڑی ہے؟ ایک اہم سوال جسے یونیورسٹی کی بامعنیٰ ترقی چاہنے والے لوگوں کو پوچھنا چاہئے کہ کیا اے ایم یو اپنی تاریخی ذمہ داریوں اور اپنے بانی کے خواب کو پوراکر رہا ہے یا وہ ماضی میں ہی اَٹک گیا ہے؟

”ہم ملک کے مختلف اطراف میں اے ایم یو چاہتے ہیں“

2009 میں، اے ایم یو انتظامیہ نے اس وقت کے وائس چانسلر پروفیسر پی کے عبدالعزیز کی قیادت میں اترپردیش کے باہر اے ایم یو کے پانچ کیمپس قائم کرنے کا تاریخی فیصلہ لیا۔ جس کے تحت بہار، کیرالہ، مدھیہ پردیش، مہاراشٹر اور مغربی بنگال میں خصوصی مراکز کا قیام ہونا طے پایا۔

پروفیسر عبدالعزیز نے ای آئی ایف سے اس اقدام کے پیچھے کے اسباب کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا کہ”ہم اے ایم یو کے ثقافتی و اکادمی اقدار کو سامنے رکھتے ہوئے ملک کے جنوب، شمال، مشرق، مغرب اور مرکزی حصے میں اے ایم یو کے مراکز قائم کرنا چاہتے تھے۔“

انہوں نے کہا ”ان مراکز کے قیام کے پیچھے تین بڑے اسباب کارفرما ہیں – پہلا اے ایم یو کی اپنی عظیم وراث؛ دوسرا قومِ مسلم کی حد درجہ پسماندگی اور سچر کمیٹی رپورٹ کی تحقیقات کے متعلق ہونے والی عمومی بحثیں؛ اور تیسرا اے ایم یو ایکٹ کی وہ شق جو علی گڑھ کے باہر خصوصی مراکز کے قیام کی اجازت دیتی ہے۔“ واضح رہے کہ عبدالعزیز یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی میگھالیہ (یو ایس ٹی ایم) اور کوچن یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (سی یو ایس اے ٹی) کے وائس چانسلر کی خدمات بھی انجام دے چکے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ایک لمبے عرصے تک سچر کمیٹی رپورٹ پر ملک گیر مذاکرات کئے گئے۔ اسی طرح سچر کمیٹی رپورٹ کے بعد منموہن سنگھ کی قیادت والی یوپی اے حکومت کے ذریعہ پیش کردہ ”اقلیتوں کے لئے مثبت اَقدام“ اور ”15 نکاتی پروگرام“ پر بھی طویل مباحثے ہوئے۔ لہٰذا سچر کمیٹی رپورٹ علی گڑھ کے باہر اے ایم یو کے خصوصی مراکز کے تصوّر کے پیچھے کا اہم عامل رہی۔

اے ایم یو ایکٹ (علی گڑھ مسلم یونیورسٹی ایکٹ، 1920) کی ایک شق جو یونیورسٹی کو علی گڑھ کے باہر بھی خصوصی مراکز شروع کرنے کا اختیار دیتی ہے، اس نے کام کو اور آسان کر دیا۔ سابق وی سی نے کہا ”میں نے ملک کے مختلف حصوں میں اے ایم یو کے مراکز قائم کرنے کے امکانات کو سمجھا۔ مسلمانوں کی پسماندگی بالخصوص تعلیمی پسماندگی کو دیکھتے ہوئے ہم ملک کے مختلف حصوں میں اے ایم یو کا قیام چاہتے ہیں۔“

اس قدم کو زبردست حمایت حاصل ہوئی

بہار، بنگال اور کیرالہ میں اے ایم یو کے خصوصی مراکز کے قیام کے وقت کے ایام کو یاد کرتے ہوئے اے ایم یو کے سابق پروفیسر نے کہا کہ اس اقدام نے مختلف ریاستوں کے مسلمانوں کے درمیان ایک نئی امید جگائی۔

”یہ خیال ایک حقیقت بننے میں کامیاب رہا کیونکہ اے ایم یو کورٹ اور مجلس عاملہ جیسی یونیورسٹی کی متعدد مجالس کے علاوہ مختلف سیاسی پارٹیوں کے لیڈران نے بھی اس کی حمایت کی۔“

اس وقت کے وزیر مالیات پرنب مکھرجی اور وزیر برائے فروغ انسانی وسائل محمد علی اشرف فاطمی اس خیال کے بڑے حامیوں میں سے تھے۔ ”پرنب مکھرجی نے مجوزہ اے ایم یو سنٹرس کے لئے مرکز کے بجٹ میں 50 کروڑ روپئے مختص کرکے مدد کی، اور ساتھ ہی مرشدآباد میں سنٹر کے لئے زمین لینے کے لئے سی پی آئی (ایم) کی حکمرانی والی بنگال ریاستی حکومت کے ساتھ مل کر کام بھی کیا۔“

انہوں نے بتایا کہ دیگر مختلف ریاستوں میں مجوزہ اے ایم یو مراکز کے حق میں ان ریاستوں کے عوام کی طرف سے زبردست مطالبات اور تحریکات سامنے آنے لگیں۔

سابق وی سی جو اس خیال کے کلیدی چہرہ تھے، انہوں نے کیرالہ کے وزرائے اعلیٰ وی سی اچوتھانندن اور اومین چنڈی، وزیر اعلیٰ بنگال بدھادیب بھٹاچاریہ، وزیر اعلیٰ بہار نتیش کمار، عبدالمنان حسین (لوک سبھا ایم پی، مرشدآباد) اور مولانا اسرارالحق (لوک سبھا ایم پی، کشن گنج) جیسے مختلف ریاستوں کے متعدد قدآور سیاستدانوں کا بھی ذکر کیا جنہوں نے اے ایم یو مراکز کی حمایت کی۔ ساتھ ہی انہوں نے ایم اے بیبی، پلولی محمد کُٹّی، عبدالرب، پی کے کنہالی کُٹّی اور آریدان محمد جیسے کیرالہ کے مختلف حکومتوں کے وزراء سے ملی حمایت کو بھی سراہا۔

پروفیسر نے ان الفاظ سے ان حضرات کی حمایت کو یاد کیا کہ ”ان سیاستدانوں اور دیگر افراد کے مثبت ردّعمل اور کوششوں نے اے ایم یو انتظامیہ میں ایک ”حوصلہ“ پیدا کیا“ اور اس خیال کو ”ایک شکل دینے اور جلد ہی حقیقت میں تبدیل کرنے میں“ مدد کی۔

”سال 2009میں یونیورسٹی کے اس منصوبے کے اعلان کے محض ڈیڑھ سال کے اندر ہی بہار، بنگال اور کیرالہ حکومتوں نے یونیورسٹی کو زمین فراہم کر دی اور محض دو سالوں کے اندر 2011میں کلاسیں بھی شروع ہو گئیں۔“

انہوں نے بتایا کہ وی سی اچوتھانندن کی کیرالہ حکومت سنٹر کے لئے ملپورم میں زمین دینے والی پہلی ریاست تھی۔اور بنگال میں، گرچہ پرنب مکھرجی اور بدھادیب بھٹاچاریہ الگ الگ پارٹیوں سے وابستہ تھے، لیکن ”انہوں نے مرشدآباد سنٹر کو حقیقت کا روپ دینے کے لئے مل کر کام کیا۔“

دیگر دو ریاستیں جہاں اے ایم یو انتظامیہ خصوصی مراکز کا قیام چاہتی تھی، ان میں سے مدھیہ پردیش نے اس تجویز کو نامنظور کر دیا، جبکہ مہاراشٹر نے پہلے تھوڑی جھجھک دکھائی لیکن بعد میں دیگر ریاستوں کے مراکز کو دیکھتے ہوئے مثبت جواب دیا۔ تاہم ایم پی اور مہاراشٹر دونوں ہی جگہ مراکز کا قیام نہ ہو سکا۔ پروفیسر عبدالعزیز نے بتایا کہ کس طرح اس اقدام نے ایک امید جگائی اور ملک کی مختلف ریاستوں اور اقلیتی جماعتوں کی توجہ حاصل کی۔

”اُن پانچ ریاستوں کے علاوہ جہاں ہم نے مراکز کے قیام کا منصوبہ بنایا تھا، مزید پانچ ریاستوں سے اے ایم یو سنٹر قائم کرنے کی پیش کش اور تجویز موصول ہوئی۔“

”راجستھان کے وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت نے مرکز کے قیام کے لئے اجمیر میں تقریباً 300/ایکڑ زمین ہمیں پیش کی۔اسی طرح آسام کے وزیر اعلیٰ ترون گوگوئی نے مجھے تحریری پیغام بھیج کر گوہاٹی میں زمین دینے کی بات کی۔ ہریانہ حکومت نے بھی ہمیں کہا کہ وہ اپنے یہاں مرکز قائم کرنے میں ہمارا پورا تعاون کریں گے۔ تملناڈو وقف بورڈ نے ہمیں سنٹر شروع کرنے کے لئے زمین کی پیش کش کی۔ آندھرا پردیش وقف بورڈ نے بھی ایسی ہی پیش کش کی۔“ پروفیسر عبدالعزیز نے کہا ”اگر یہ تجاویز حقیقت بن جاتیں، تو ایک بڑے تعلیمی انقلاب کا باعث ہوتیں۔“

ان سنٹرس کو چلانے کے لئے تعمیرات اور تنخواہوں وغیرہ جیسے اخراجات برداشت کرنے کی اے ایم یو کی استعداد پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا ”یہ ایک طویل عمل ہے جس میں 10سے 15 سال لگ سکتے ہیں۔ ہمیں تمام چیزیں یکبارگی حاصل کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ البتہ یہ مراکز ایک تحریک کی طرح مرکزی کردار نبھائیں گے۔“

”سنٹر وہیں ہیں جہاں سے وہ شروع ہوئے“

تین ریاستوں میں اے ایم یو کے خصوصی سنٹر کی موجودہ صورتحال ہمارے سامنے عدمِ توجہی اور ناانصافی کی داستان بیان کرتے ہیں۔ ان سنٹروں سے وابستہ اے ایم یو کے سابق و موجودہ اعلیٰ عہدیداران کا کہنا ہے کہ یہ ادارے ان اہداف سے کوسوں دور ہیں جن کے لئے انہیں شروع کیا گیا تھا۔

ملپورم، کیرالہ اے ایم یو سنٹر کے ناظم ڈاکٹر فیصل کے پی نے کہا کہ سنٹر کو فنڈنگ کی قلت کا سامنا ہے۔ ”انہوں نے کہا ”فنڈنگ کی قلت ہے۔“ انہوں نے یہ بھی کہا کہ سنٹر نے تعمیراتی سہولیات کو بہتر بنانے اور نئے کورس شروع کرنے کے لئے مختلف تجاویز دی ہیں لیکن اب تک نتیجے کے انتظار میں ہے۔

پروفیسر حسین امام جو کہ بہار کے کشن گنج اے ایم یو سنٹر کے ناظم ہیں، انہوں نے بھی کہاکہ ادارے کے لئے ”مرکزی حکومت نے ابھی تک پوسٹ اور فنڈ کا تعین نہیں کیا ہے“۔ تاہم پروفیسر امام نے کہا کہ ”اے ایم یو انتظامیہ کے تعاون سے۔۔۔سنٹر اچھا چل رہا ہے۔“ انہوں نے کہا ”اس سنٹر کو بآسانی چلانے کے لئے اے ایم یو سے مناسب مالی تعاون مل رہا ہے۔“

لیکن پروفیسر عبدالعزیز نے کہا کہ وہ ان مراکز کی موجودہ حالت سے مطمئن نہیں ہیں۔ ”وہ وہیں ہیں جہاں سے شروع ہوئے تھے۔“

قیام کے سالوں بعد بھی، دو سے تین کورسوں کے علاوہ جن سے ان مراکز نے شروعات کی تھی، کوئی نیا کورس شروع نہیں کر پا رہے ہیں۔
ان مراکز میں صرف تین کورس دئے جاتے ہیں – بی ایڈ، ایم بی اے اور بی اے ایل ایل بی۔

تینوں مراکز میں بی ایڈ اور ایم بی اے پروگرام دئے جاتے ہیں، جبکہ ملپورم اور مرشدآباد کے سنٹر بی اے ایل ایل بی (آنرس) کا کورس بھی دیتے ہیں۔

کشن گنج سنٹر کے ڈائرکٹر پروفیسر حسن امام کے مطابق وہاں بی ایڈ پروگرام ابھی ”موقوف“ ہے۔ انہوں نے کہا ”کچھ تکنیکی مسائل کی وجہ سے بی ایڈ پروگرام فی الحال موقوف ہے۔“ انہوں نے مزید کہا کہ بی ایڈ پروگرام کی بحالی کا معاملہ ابھی پٹنہ ہائی کورٹ میں ہے۔

یہ تمام حقائق بتاتے ہیں کہ ان اے ایم یو سنٹروں کو عدمِ توجہی کا سامنا ہے، اور ان مراکز کی حفاظت اور ترقی کے لئے اے ایم یو انتظامیہ اور مرکزی حکومت دونوں کی فوری و مؤثر مداخلت اشد ضروری ہے۔

”یونیورسٹی کی مجالس سے منظور شدہ ہمارے اصل منصوبے کے مطابق، ان مراکز کو 21-2020 تک مکمل یونیورسٹی بن جانا چاہئے تھا۔“

پروفیسر عبدالعزیز نے کہا کہ ان کی انتظامیہ کو شروعات سے ہی تنقیدوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ”ہم پر الزام لگایا گیا کہ ہم اے ایم یو کو توڑنے اور اس کی ثقافت کو تباہ کرنے کے درپے ہیں۔ ان مراکز کے خلاف ایک طرح کا پروپگنڈہ چلایا گیا، جو کہ بہت زیادہ مایوس کن تھا۔“

سابق وی سی کے مطابق، ان کی مدت کار مکمل ہونے کے بعد مراکز کو لے کر یونیورسٹی انتظامیہ نے بظاہر اپنے موقف کو تبدیل کیا، حتیٰ کہ انتظامیہ نے متعدد صوفیا کے تاریخی شہر خلدآباد میں مہاراشٹرا ریاستی حکومت کے ذریعہ دی جانے والی زمین کو نہ لینے کا بھی فیصلہ کر لیا۔

ان کی انتظامیہ نے ان مراکز کی ترقی کے لئے ایک ”مرحلہ وار منصوبہ“ تیار کیاتھا، اور حکومت کو دی گئی اس کی تجاویز اور حکومت کا جواب دونوں کی بنیاد یہی منصوبہ تھا۔ انہوں نے کہا ”ہمارے اصل منصوبے کے اعتبار سے، دس سال کی تکمیل کے بعد ہر ایک کیمپس (خصوصی سنٹر) میں دس ہزار طلبہ اور ایک ہزار اساتذہ ہونے چاہئے تھے۔“

پروفیسر عبدالعزیز کو لگتا ہے کہ یونیورسٹی سے ان کے جانے کے بعد قائم شدہ مراکز کی ترقی یا دیگر مجوزہ مراکز کے قیام کے تعلق سے ”کوئی سنجیدہ کوشش“ نہیں کی گئی۔ علی گڑھ کے باہر اے ایم یو مراکز کے معاملے سے بخوبی واقف یونیورسٹی کے ایک اسٹاف نے بتایا کہ ان مراکز سے کہا گیا کہ وہ مختلف مالی ضروریات کی تکمیل کے لئے اپنے ”ذرائع آمدنی پیدا کریں“۔ حالانکہ آزادانہ طور پر آمدنی پیدا کرنا کسی بھی نئے ادارے کے لئے آسان نہیں ہے۔

چند مشاہدین کا کہنا ہے کہ شاید اے ایم یو انتظامیہ ”علی گڑھ کے مسائل میں ہی الجھ کر رہ گئی ہے“، اور وہ اترپردیش کے باہر یونیورسٹی کے مراکز پر مناسب توجہ نہیں دے پارہی ہے۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط کے ساتھ یونیورسٹی کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے کہا ”یونیورسٹی انتظامیہ ان خصوصی مراکز کی طرف سے آئی تجاویز پر فوری و مثبت فیصلے نہیں لے رہی ہے۔“

پروفیسر عبدالعزیز کہتے ہیں کہ اب وہ ”بہت غمگین اور مایوس“ ہو گئے ہیں، ”کیونکہ اے ایم یو کے خصوصی مراکز اس سے آگے نہیں بڑھ پائے جہاں سے انہوں نے ایک دہائی قبل شروعات کی تھی۔“ انہوں نے کہا کہ ”ہم نے مسلمانانِ ہند کے کاز کے ساتھ دھوکہ کیا ہے۔“ انہوں نے مزید کہا کہ اے ایم یو مراکز کے قیام کے لئے ”کئی ایکڑ زمین“ دینے والی ریاستی حکومتوں کے ساتھ بھی ”دھوکہ“ ہوا ہے۔ ہم اپنی ذمہ داری کو پورا نہیں کر پائے۔“

”طریقہ کار پر صحیح سے عمل کریں، تو سب کچھ مل سکتا ہے“

سے 2021 تک یونیورسٹی کو چلانے والے سابق وائس چانسلر نے کہا ”اگر یونیورسٹی کے وائس چانسلر 2007 اور دیگر عہدیدار طریقہ کار پر صحیح سے عمل کریں، تو سب کچھ حاصل کیا جا سکتا ہے، خصوصاً مرکزی حکومت سے مالی تعاون۔ آپ طریقہ کار پر عمل کریں، ضوابط کے مطابق اپنا کام کریں، تو آپ کی تجاویز تمام حکومتی شعبوں سے بآسانی پاس ہو جائیں گی۔۔۔ یہ میرا تجربہ ہے۔“

”حکومت ہند کے ساتھ میرا تجربہ کافی اچھا رہا۔ مجھے ہر وہ چیز ملی جو میں نے یونیورسٹی کے لئے چاہی۔ (بااثر شخصیات) سے دباؤ کی کبھی ضرورت نہیں پڑی۔

ان کے مطابق، کئی تجاویز میں اس لئے کامیابی نہیں ملی کیونکہ ہم اپنا کام صحیح سے نہ کر سکے۔”اگر آپ کچھ کروانا چاہتے ہیں تو آپ کو ایک سال پہلے سے اپنا کام شروع کرنا پڑے گا۔“ انہوں نے اس وقت بھی یونیورسٹی کا ”کام کروایا“ جب وزیر برائے فروغ انسانی وسائل کے ساتھ ان کے روابط بہت اچھے نہیں تھے۔ اگر آپ صحیح سے کام کر رہے ہیں، تو کوئی بھی وزیر آپ کو ’نا‘ نہیں کہہ سکتا۔ یہ میرا تجربہ بھی ہے اور یقین بھی۔

کشن گنج اے ایم یو سنٹر کے متعلق اپنے وژن پر بات کرتے ہوئے، اس کے ڈائرکٹر پروفیسر حسن امام نے کہا کہ وہ سنٹر کو لے کر ”بہت زیادہ پُرامید“ ہیں، اور انہیں امید ہے کہ سنٹر ”بہت تیزی سے ترقی کرے گا، اور عنقریب یہ ایک عظیم یونیورسٹی بنے گا جو جدید تعمیرات اور وافر اسٹاف سے لیس ہوگا۔“

اے ایم یو کے اس خیال کو پسند کرنے والے اور مسلمانانِ ہند کی تعلیمی پسماندگی کے تعلق سے فکرمند ہر ایک شخص نہ صرف کشن گنج سنٹر کے لئے بلکہ اے ایم یو کے موجودہ اور مستقبل میں قائم ہونے والے ہر ایک سنٹر کے لئے اسی امید کا اظہار کرتا ہے۔

facebook
Twitter
Follow